حال دل…!

یوں تو کہنے کہ لیے بہت ساری باتین ہیں، یوں تو لکھنے کہ لیے بہت سارے عنوان ہیں، لیکن ہم بھی کیا کرے جناب، حضرت عشق کے ہاتھوں مجبور ہیں، جب سوچنا شروع کرتے ہیں تو سارے خیالات، ساری امنگیں، ساری خواہشیں آپ پے آہ کر ختم ہوجاتی ہیں، آپ ہماری ابتدہ اور آپ ہی ہماری انتھا ہے۔

آپ کے حسن و جمال کی جتنی تعریف کی جاۓ وہ کم ہے، آپ کے ہونٹ، جن کو دیکھتے ہی ہماری ساری عبادتیں، ریاضتیں کم سی محسوس ہونے لگتی ہیں، آپ کے زلف، ہاۓ ہاۓ کیا کہنا جناب…!

کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو کہ ان زلفون کہ ساۓ سے محروم رہ جاۓ، اسی طرح آپ میرے دل کے گلشن میں ایک رانی کی طرح راج کر رہی ہیں، اور ایک میں ہوں جو کہ آپ کہ آگے ایک غلام ہی سا بنا بیٹھا ہوں

دنیا تو حُسن سے بھرا پڑا ہے، مگر اِن آنکھوں کو سواے آپ کہ دیدار کہ وہ سکون کہا عطا ہوتا ہے، پروردگار عالم سے کبھی کبھار شکایتیں کرنا شروع کر دیتا ہوں مگر پھر یکدم ہی یہ خیال آتا ہے کہ جس پروردگار عالم نے مجھے آپ جیسی انمول محبت عطا کی ہے اب اُس سے کیا شکوہ، کیا شکایت، اور پھر اُسی وقت خدا سے شکایت کے بجاۓ شکریہ ادا کیا دیتا ہوں۔


Comments

Popular posts from this blog

ڪتاب: ”نِوڙت سڀ نماز“ جو جائزو

ڪتاب کي ڪيئن پڙهڻ گهرجي

زندگي جو فلسفو